غزلِ امیر مینائی
مرے بس میں یا تو یا رب، وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا
پسِ مرگ کاش یوں ہی، مجھے وصلِ یار ہوتا
وہ سرِ مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا
ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں خمار ہوتا
مرے اتّقا کا باعث، تو ہے میری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا، تو شراب خوار ہوتا
میں ہوں نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا
نہیں پوچھتا ہے مجھ کو، کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا تو گلے کا ہار ہوتا
وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب
مرے دونوں پہلوؤں میں، دلِ بے قرار ہوتا
دمِ نزع بھی جو وہ بُت، مجھے آ کے مُنہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرم سار ہوتا
نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لَحَد فشار دیتی
سرِ راہِ کوئے قاتل، جو مرا مزار ہوتا
جو نگاہ کی تھی ظالم، تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا، جو جگر کے پار ہوتا
میں زباں سے تم کو سچّا، کہو لاکھ بار کہہ دُوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا
مری خاک بھی لَحَد میں، نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک، نہیں اعتبار ہہوتا
_____________________________
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مرے لیے کوئی شایان التماس نہیں
ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اُٹھتا ہے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
() ناصر کاظمی ()
____________________________
کوئی رنجش مری ذاتی نہیں ہے
یہ دنیا راس بس آتی نہیں ہے
امیدیں ہیں تو ہیں ساری خزاں سے
بہار اچھی خبر لاتی نہیں ہے
بھروسہ خار پر ہے گل کی نسبت
کہ اس کی خو بدل پاتی نہیں ہے
سمجھ آئی ہے جب سے اس جہاں کی
کوئی شے اک نظر بھاتی نہیں ہے
تو اپنے خواب میں کیا دیکھتا ہے
ہمیں تو نیند اب آتی نہیں ہے
سرہانے رات میرے جاگتی ہے
اندھیرا ہی مرا ساتھی نہیں ہے
اندھیروں کو بھلا اب کوسنا کیا
دیے میں جب ترے باتی نہیں ہے
تھکن سے چور ہے خود نا خدا بھی
یہ کشتی ڈوب کیوں جاتی نہیں ہے
نہ جانے زندگی کیا شے ہے ابرک
کہ خواہش دل ہی سے جاتی نہیں ہے
(اتباف ابرک)
____________________
قصے پُرنم نہیں رہے اس میں
جب ترے غم نہیں رہے اس میں
آپ کس دل کی بات کرتے ہیں
اب وہ عالم نہیں رہے اس میں
غمِ دوراں سے دل ہے یوں بہلا
تیرے ماتم نہیں رہے اس میں
اب تو کردار داستاں کے کہیں
آپ کچھ جم نہیں رہے اس میں
مانتا ہوں وجود ہے باقی
اب مگر ہم نہیں رہے اس میں
سچ یہ ہے ، جسم بھی ہے تھکنے لگا
ہم بھی تو کم نہیں رہے اس میں
ہر ضرورت کہے نچوڑو اسے
تھوڑا بھی دم نہیں رہے اس میں
آنکھ نے دیکھی ہے حیات ابرک
اشک اب تھم نہیں رہے اس میں
اتباف ابرک
_______________________
حرفِ رنجش پہ کوئی بات بھی ہو سکتی ہے
عین مُمکن ہے، مُلاقات بھی ہو سکتی ہے
زندگی پُھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے!
زندگی، گردشِ حالات بھی ہو سکتی ہے
ہم نے یہ سوچ کے رکھّا ہے قدم گُلشن میں !
لالہ و گُل میں تِری ذات بھی ہوسکتی ہے
چال چلتے ہُوئے، شطرنج کی بازی کے اُصول !
بُھول جاؤ گے، تو پھر مات بھی ہوسکتی ہے
ایک تو چھت کے بِنا گھر ہے ہمارا
اُس پہ یہ خوف ، کہ برسات بھی ہو سکتی ہے
محسن نقوی
____________________________
دیپ جلتا ھے نہ آتی ھے صدا شام ڈھلے
بھیگ جاتی ھے مِرے گھر کی فضا شام ڈھلے
اب اُسے رات کے صحراؤں میں کرتا ہوں تلاش
جس نے اِک دِن مُجھے ملنے کو کہا، "شام ڈھلے"
بس اسی آس پہ ھم تا بہ سحر جاگتے ھیں
آسمانوں سے اُترتا ھے خُدا شام ڈھلے
وقتِ رُخصت تیرا چہرہ نہیں دیکھا جاتا
خامُشی سے کبھی ہو جانا جُدا شام ڈھلے
آندھیاں رُک کے ادا کرتی ھیں چلنے کا خراج
جب بھی جلتا ھے کوئی ٹُوٹا دِیا شام ڈھلے
ورنہ سُورج کی طرح میں بھی کہیں ڈَھل جاتا
روک لیتی ھے ، مُجھے میری انا شام ڈھلے
جب بھی گرتے ھیں رگِ جاں میں سُلگتے آنسو
دم بخود دیکھتی رہتی ھے ہوا شام ڈھلے
اِس طرح اُس کو لگی شہرِ جدائی کی ہوا
جیسے لگتی ھے کسی ماں کی دُعا شام ڈھلے
✍احمد حماد
__________________________
جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟
آبلہ پا ہیں مرے ساتھ زمانے- کب سے!
میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں ہاتھ دکھانے کب سے
نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو!
مجھ سے رُخ پھیر لیا میرے خدا نے کب سے
جان چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سے
وہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دیے گھر میں جلانے کب سے؟
شہر میں پرورشِ رسمِ جنوں کون کرے؟
یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے؟
آنکھ رونے کو ترستی ہے تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں احسان جتانے کب سے
جن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سے
لوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سے
جانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا؟
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے
جن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسؔن
بختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے!
محسن نقوی
_________________________________
مدہوش تیری آنکھیں بے مثال تیری آنکھیں
محبوب تو کیا جانے ہیں کمال تیری آنکھیں
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
گلاب آنکھیں شراب آنکھیں
یہی تو ہیں لاجواب آنکھیں
انہیں میں الفت انہیں میں نفرت
سوال آنکھیں عذاب آنکھیں
کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں
کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں
کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی
کسی نے پائ شراب آنکھیں
وہ آۓ تو لوگ مجھ سے بولے
حضور آنکھیں جناب آنکھیں
عجب تھا گفتگو کا عالم
سوال کوئ جواب آنکھیں
یہ مست مست بے مثال آنکھیں
نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں
اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں
گریں تو کر دیں کمال آنکھیں
کوئ ہے انکے کراہ کا طالب
کسی کا شوق وصال آنکھیں
نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں
کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں
ہیں جینے کا اک بہانہ یارو
یہ روح پرور جمال آنکھیں
درّاز پلکیں وصال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں
شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھی حلال آنکھیں
ہزاروں ان سے قتل ہوۓ ہیں
خدا کے بندے سمبھال آنکھیں
______________________
0 Comments